Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”اماں جان میں نے سنا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ نہیں چل رہیں۔ فاخر کو انگوٹھی پہنانے کے لیے“ صباحت حیرت سے بولتی ہوئی آئی تھیں۔ 
”ٹھیک سنا ہے بہو! یہ چھوٹی سی رسم ہے تم لوگ جاؤ میرے گھٹنے ویسے ہی درد سے اکڑ رہے ہیں، وہاں بے آرام ہوں گی میں “ان کے لہجے میں نرمی اور محبت تھی صباحت قریب بیٹھ کر بولیں۔ 
”نہیں اماں آپ کو ساتھ ہی چلنا پڑے گا ہم پہلی بار تو اس رشتے سے وہاں جارہے ہیں آپ ہماری بزرگ ہیں آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے ہمیں اور فاخر کو شگون کی انگوٹھی آپ ہی پہنائیں گی “
”تم پہنا دینا صباحت تم نے پہنائی یا میں نے ایک ہی بات ہے کل فاخر بارات لے کر آئے گا تو میں مل لوں گی اس سے اور دعائیں تو اپنے بچوں کے لیے میں ہر وقت کرتی ہوں “
”‘اماں جان آپ کو چلنا پڑے گا یہ میری ہی نہیں فیاض کی بھی خواہش ہے ‘
”میں بھی چلی گئی تو عائزہ کے پاس کون رہے گا گھر میں ؟“ان کے پرزور اصرار پر وہ جز بز ہوکر گویا ہوئیں۔


 
”عائزہ کی آپ فکر مت کریں، عادلہ رہے گی اس کے پاس پھر فیاض اور دیگر ملازم گھر میں ہیں عائزہ تنہا گھر میں نہیں ہوگی، بس آپ جلدی سے تیار ہوجائیں ہم سب بھی تقریباً تیار ہی ہیں “وہ کہہ کر کمرے سے نکل گئیں اماں نے ان کی خوشی کی خاطر ساتھ جانے کا ارادہ کرلیا۔ 
صباحت تیز تیز قدموں سے کوریڈور سے گزر رہی تھیں جب انہوں نے پری کو کچھ سامان ہاتھوں میں تھامے اپنے کمرے کی طرف جاتے دیکھا وہ سرعت سے اس کے قریب آئیں اور تیز لہجے میں پوچھنے لگیں۔
 
”ارے یہ تو لہنگا سوٹ ہے جو کل عائزہ کو زیب تن کرنا ہے، تم یہ کہاں لے جارہی ہو، اور کس کی اجازت سے ؟“
”وہ دادی جان نے کہا تھا میں یہ پریس کرکے ہینگ کردوں “ان کی تیز نظروں اور تیکھے لہجے سے وہ بری طرح گھبراگئی تھی ۔ 
”سارے نوکر چاکر مرگئے ہیں کیا، جو تم یہ سب کرنے چلی ہو “
”ممی! دادی جان کا خیال ہے یہ اتنا قیمتی سوٹ ہے خیرون سے خدانخواستہ جل گیا تو بہت برا ہوگا “
”ہونہہ، یہ مجھے دو “انہوں نے آگے بڑھ کر اس سے سوٹ چھین لیا۔
 
”صاف کیوں نہیں کہتی جل گئی ہو میری عائزہ کی اتنی اچھی بری دیکھ کر تمہارے سینے پر سانپ لوٹ گئے ہوں گے سوتیلی بہن کے اتنے اچھے نصیب دیکھ کر، تم نے جرات کیسے کی میری بچی کے بری کے سامان کو ہاتھ لگانے کی غضب خدا کا میں نہ دیکھتی تو تم نامعلوم کیا کرگزرتی حسد میں “
”ارے کیا ہوا صباحت! خیر تو ہے ؟“آصفہ وہاں آکر بولیں۔ عامرہ بھی ان کے پیچھے آرہی تھیں اور پری ان کے تابڑ توڑ حملوں کی زد میں کھڑی رہ گئی ، مارے سبکی کے اس سے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔
 
”کیا بات ہوئی ہے بھابھی جان !کیوں اس قدر اشتعال میں ہیں آپ ؟“عامرہ نے پسینہ پسینہ ہوتی پری کو دیکھتے صباحت سے استفسار کیا۔ 
”میری بچی کا عروسی لباس یہ جلانے جارہی تھی آپا! وہ تو شکر ہے میں نے دیکھ لیا ورنہ میری بچی کو سسرا جاکر کیا کچھ نہ سننا پڑتا اس کی وجہ سے جو اب معصوم صورت بنائے کھڑی ہے “
”پری اپنے روم میں جاؤ “آصفہ نے نرم لہجے میں کہا۔
 
”بھابی شاید آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے پری ایسا کیوں کرے گی، پری جانے سے قبل بات صاف کرکے جاؤ، بھابی درست کہہ رہی ہیں “عامرہ نے استفسار کیا تھا۔ 
”تم سوٹ جلانے کا ارادہ رکھتی تھیں “آصفہ نے سنجیدگی سے کہا۔ 
”پھوپو! مجھ سے دادی نے یہ سوٹ پریس کرنے کا کہا اور میں ممی کی اجازت کے بنا یہ کام کر رہی تھی یہی جرم ہے میرا “اس نے بہت ضبط سے آنسو روکتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلی گئی ۔
 
”دیکھا، کس طرح منہ چھپا کر بھاگی ہے حاسد کہیں کی ، وہ پری کو جاتے دیکھ کر قدرے تیز لہجے میں گویا ہوئیں “
”آپ غلط فہمی کا شکار ہورہی ہیں پری حسد کرنے والوں میں سے نہیں ہے ہر کام اس نے آگے بڑھ کر کیا ہے اپنا حق نبھارہی ہے وہ اور پھر حسد کرنے والے الگ ہی نظر آتے ہیں بھابی جان “آصفہ نے کہا۔ 
”بس بہت ہوچکا صباحت! تم اس سوتیلے سگے کے چکر سے باہر نکل آؤ خوامخواہ رشتوں میں تفریق پیدا کرکے محبتوں میں فاصلے مت بناؤ، بیٹیاں تو مہمان ہوتی ہیں بابل کے آنگن میں آج عائزہ کے نصیب کھل گئے ہیں کل پری بھی رخصت ہوجائے گی ، ساری چڑیاں اڑ جائیں گی، اپنے اپنے آشیانوں کی جانب اور ہم اس وقت کو یاد کرکے آبدیدہ ہوا کریں گے ۔
جب یہ چڑیایں ہمارے آنگن میں چہچہایا کرتی تھیں۔“آصفہ نے جذباتی انداز میں کہہ کر بات ختم کردی تھی ۔ 
وہ وہاں سے نکل کر سیدھی لان میں چلی آئی یہ لان کا نیم تاریک گوشہ تھا وہ گھاس پر گرنے والے انداز میں بیٹھی اور بے آواز رونے لگی، اس کی تمام محنت و محبت، خلوص و فرض پر صباحت کی نفرت و تنفر غالب آچکا تھا ہر بار کی طرح اس بار بھی ان کے سوتیلے پن کا وار اسے گھائل کر گیا تھا۔
وہ ان کے اس لہجے کی عادی تھی ، بچپن سے ان کا رویہ ایسا ہی رہا تھا۔ اس کی اچھائی ہمیشہ ان کی نگاہوں میں برائی ہوتی اور وہ بھی کوئی ڈرپوک یا کمزور لڑکی نہ تھی ان کے اس رویے کو بہت پراعتماد طریقے سے برداشت کرتی آرہی تھی کبھی کبھی ان کی بدگمانی پر وہ اس طرح جذباتی ہوتی تھی کہ آنسو رک نہیں پاتے تھے۔ کچھ دیر تک وہ اپنے دکھ کو آنسوؤں میں بہاتی رہی پھر چہرہ دھوکر اندر آئی تو عادلہ اس کے قریب آئی تھی ۔
 
”پری…پری کہاں تھیں تم؟میں نے تمہیں ہر طرف ڈھونڈا “
”میں لان میں تھی، کیوں ڈھونڈ رہی تھیں مجھے ؟“
”پلیز تم عائزہ کے پاس رک جاؤ تم کو معلوم ہے “ممی بصد ہیں مجھے عائزہ کے پاس چھوڑ کر جانے کے لیے مایوں، مہندی میں ہونے والا ہلہ گلہ مجھے بہت پسند ہے پھر ہمارے ساتھ شیری بھی جائیں گے اگر میں نہ گئی تو وہ بھی نہیں جائیں گے ۔
وہ ایک سانس میں بولتی چلی گئی حسب عادت اپنی غرض پر اس کا لہجہ التجائیہ تھا۔ پری نے اس کی طرف دیکھا اور سنجیدگی سے گویا ہوئی ۔ 
”ممی نے مجھ سے نہیں کہا کہ …میں عائزہ کے پاس رک جاؤں اور وہ یہ پسند بھی نہیں کریں گے میں عائزہ کے پاس رہوں “
”کیا تمہارا بھی مہندی کے فنکشن میں جانے کا ارادہ ہے ؟“وہ چونک کر بولی۔ 
”نہیں …میں نہیں جاؤں گی “وہ آہستگی سے گویا ہوئی ۔
 
”اچھا ہے تم بور ہی ہوگی۔ تم کو ایسے فنکشن کہاں پسند ہیں نہ جاؤ یہی ٹھیک ہے پھر عائزہ کے پاس ہی رک جاؤ اپنے روم میں کیا کروگی میں جاکر ممی سے کہتی ہوں تم نہیں جارہیں ہمارے ساتھ تم عائزہ کے پاس رہو گی۔ دیکھنا ممی کو میں ابھی کس طرح راضی کرتی ہوں “اس نے چتکی بجاتے ہوئے کہا اور تیزی سے وہاں سے چلی گئی ۔ 
”کب تک اپنے جذبوں کی قربانی دیتی رہوگی تم ؟قربانیاں اچھے لوگوں کے لیے دی جاتی ہیں جو ان جذبوں کی قدر کرتے ہوں۔
ایسے لوگوں کی خاطر کیوں خود کو سولی پر لٹکاتی ہو جو تمہارے مرنے پر ایک آنسو بہانے والے نہیں ہیں۔“ طغرل ستون کی آر سے نکل کر گویا ہوا۔ 
”میں قربانی نہیں دے رہی ۔ میرے سر میں درد ہے اس وجہ سے نہیں جارہی اور ویسے بھی مجھے ایسی تقریبات سے چڑ ہے “اس کو اچانک سامنے دیکھ کر وہ گڑبڑاگئی تھی ۔ اپنا دفاع کرنے کے لیے اس کا لہجہ پراعتماد تھا مگر لہجہ کا کھوکھلاپن اس کو خودبھی محسوس ہورہا تھا۔
 
”تم اس گھر کی فرد ہو پارس! فیاض چچا کی بیٹی ہو اس گھر پر تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا عادلہ اور عائزہ کا عادلہ کون ہوتی ہے تم کو اپنی مرضی پر چلانے والی، تم اس کی ملازمہ نہیں ہو تم سب کے ساتھ جاؤ گی “اس نے کمرے سے نکلتے ہوئے عادلہ کی آخری گفتگو سن لی تھی وہ بدمزگی کے خیال سے عادلہ سے کچھ نہ بولا پر اس کے جاتے ہی وہ ستون کی آڑ سے نکل کر بگڑے تیوروں سے اسے سمجھا رہا تھا۔
 
”میرا موڈ نہیں ہے۔ میں خود جانا نہیں چاہتی، پلیز آپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ میرا پرسنل میٹر ہے “وہ سخت لہجے میں کہہ کر آگے بڑھ گئی طغرل نے گہرا سانس لیا ۔ صباحت نے عادلہ کی بات سن کر غصے سے کہا۔ 
”تم از حد سیلفش لڑکی ہو عادلہ! تم کو خود بہن کے پاس رکنا چاہیے تھا لیکن تم اپنی ذمہ داری پری پر ڈال آئی ہو ہمیشہ اپنا مفاد دیکھتی ہو تم “
”اس میں خود غرضی کی بات کہاں سے آگئی ہے ممی ! مجھے فاخر سے دودھ پلائی کا نیگ وصول کرنا ہے سالی ہوں میں ان کی میرا جانا ضروری ہے پری عائزہ کے پاس رک جائے گی تو کیا ہوگا ؟“اس نے بے پروائی سے شانے اچکاتے ہوئے کہا تھا۔
 
”وہ تمہاری سگی بہن نہیں ہے شادی کے اس حسین موقع پر میں نہیں چاہتی کوئی بدشگونی ہو یا وہ لڑکی کچھ ایسا ویسا کردے جو میری بچی کی زندگی کی خوشیوں کو خاک میں ملادے “
”اب ان باتوں کا کیا مقصد ہے جب ساری تیاروں میں وہ آگے آگے رہی پھر اب ایسی باتیں سمجھ سے بالا تر ہیں “اس نے بالوں میں برش کرتے ہوئے منہ بنا کر کہا۔ 
”صاف بات یہ ہے کہ تم یہاں رکنا ہی نہیں چاہتی تم کو بہن کی پروا نہیں ہے اس کی خوشیوں سے زیادہ اپنی خوشیوں کی فکر ہے “
”ا و ہو ، ممی! کیوں اتنا ہائپر ہورہی ہیں ، اتنی منت سماجت کے بعد میں نے شیری کو ساتھ چلنے کے لیے راضی کیا ہے وہ تیار ہوکر آرہا ہے اور آپ ہیں کہ زبردستی یہاں مجھے رکنے پر مجبور کرنا چاہ رہی ہیں لیکن میں رکوں گی نہیں سب کو اپنی زندگی جینے کا حق ہے اپنی مرضی سے “وہ تمام لحاظ بالائے طاق رکھ کر بے رخی سے گویا ہوئی ۔
 
”یہ تم مجھ سے کہہ رہی ہو عادلہ میں نے تم کو کس حق سے محروم رکھا ہے بتاؤ تو سہی، مجھے بھی معلوم ہو میں کتنی ظالم ہوں؟“کتنے حق ضبط کیے ہیں میں نے تمہارے ؟اس کی ہٹ دھرمی پر وہ شاکڈ انداز میں گویا ہوئیں۔ 
”کم ان ممی! ٹیمپرلوز مت کریں اپنا پلیز، ریڈی ہوں جاکر بھی میں ریڈی ہوتی ہوں “اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا اور کمرے سے نکل گئی ۔

   1
0 Comments